آنکھ کھل جائے تو گھر ماتم کدہ بن جائے گا
چل رہی ہے سانس جب تک چل رہا ہوں نیند میں
نعمان شوق
عشق کیا ہے خوب صورت سی کوئی افواہ بس
وہ بھی میرے اور تمہارے درمیاں اڑتی ہوئی
نعمان شوق
خدا معاف کرے سارے منصفوں کے گناہ
ہم ہی نے شرط لگائی تھی ہار جانے کی
نعمان شوق
کھل رہے ہیں مجھ میں دنیا کے سبھی نایاب پھول
اتنی سرکش خاک کو کس ابر نے نم کر دیا
نعمان شوق
کیسی جنت کے طلب گار ہیں تو جانتا ہے
تیری لکھی ہوئی دنیا کو مٹاتے ہوئے ہم
نعمان شوق
کبوتروں میں یہ دہشت کہاں سے در آئی
کہ مسجدوں سے بھی کچھ دور جا کے بیٹھ گئے
نعمان شوق
کبھی لباس کبھی بال دیکھنے والے
تجھے پتہ ہی نہیں ہم سنور چکے دل سے
نعمان شوق
جزیہ وصول کیجئے یا شہر اجاڑیے
اب تو خدا بھی آپ کی مرضی کا ہو گیا
نعمان شوق
جان جاں مایوس مت ہو حالت بازار سے
شاید اگلے سال تک دیوانہ پن ملنے لگے
نعمان شوق