میری خوشیوں سے وہ رشتہ ہے تمہارا اب تک
عید ہو جائے اگر عید مبارک کہہ دو
نعمان شوق
موسم وجد میں جا کر میں کہاں رقص کروں
اپنی دنیا مری وحشت کے برابر کر دے
نعمان شوق
میں خانقاہ بدن سے اداس لوٹ آیا
یہاں بھی چاہنے والوں میں خاک بٹتی ہے
نعمان شوق
میں اپنے سائے میں بیٹھا تھا کتنی صدیوں سے
تمہاری دھوپ نے دیوار توڑ دی میری
نعمان شوق
میں اگر تم کو ملا سکتا ہوں مہر و ماہ سے
اپنے لکھے پر سیاہی بھی چھڑک سکتا ہوں میں
نعمان شوق
لپٹا بھی ایک بار تو کس احتیاط سے
ایسے کہ سارا جسم معطر نہ ہو سکے
نعمان شوق
کچھ نہ تھا میرے پاس کھونے کو
تم ملے ہو تو ڈر گیا ہوں میں
نعمان شوق
کوئی سمجھائے مرے مداح کو
تالیوں سے بھی بکھر سکتا ہوں میں
نعمان شوق
کسی کے سائے کسی کی طرف لپکتے ہوئے
نہا کے روشنیوں میں لگے بہکتے ہوئے
نعمان شوق