EN हिंदी
نعمان شوق شیاری | شیح شیری

نعمان شوق شیر

85 شیر

بس ترے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر
کیسے کیسے لوگ تھے بیمار اچھے ہو گئے

نعمان شوق




آئنے کا سامنا اچھا نہیں ہے بار بار
ایک دن اپنی ہی آنکھوں میں کھٹک سکتا ہوں میں

نعمان شوق




بڑے گھروں میں رہی ہے بہت زمانے تک
خوشی کا جی نہیں لگتا غریب خانے میں

نعمان شوق




اور مت دیکھیے اب عدل جہانگیر کے خواب
اور کچھ کیجئے زنجیر ہلانے کے سوا

نعمان شوق




اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
کس کی دنیا میں آ گیا ہوں میں

نعمان شوق




ایسی ہی ایک شب میں کسی سے ملا تھا دل
بارش کے ساتھ ساتھ برستی ہے روشنی

نعمان شوق




اب اسے غرقاب کرنے کا ہنر بھی سیکھ لوں
اس شکارے کو اگر پھولوں سے ڈھک سکتا ہوں میں

نعمان شوق




آسمانوں سے زمیں کی طرف آتے ہوئے ہم
ایک مجمع کے لیے شعر سناتے ہوئے ہم

نعمان شوق




آپ کی سادہ دلی سے تنگ آ جاتا ہوں میں
میرے دل میں رہ چکے ہیں اس قدر ہشیار لوگ

نعمان شوق