اتنی تعظیم ہوئی شہر میں عریانی کی
رات آنکھوں نے بھی جی بھر کے بدن خوانی کی
ناپ سکتا ہے کوئی سرد ہوا تیرے سوا
یہ جو خندق ہے مرے چار سو ویرانی کی
دل کو معزول کیا عشق سے تو نے لیکن
خاک پہ رہ کے بھی سلطان نے سلطانی کی
سب اڑاتے ہیں مری سرد دماغی کا مذاق
یعنی دنیا کو ضرورت ہے نگہبانی کی
پھول کون ایسے کھلاتا ہے مرے چاروں طرف
دھوپ کی جن کو ضرورت نہ طلب پانی کی
دبدبہ بڑھتا گیا شہر میں خوشحالی کا
مل گئی داد مرے دشت کو ویرانی کی
غزل
اتنی تعظیم ہوئی شہر میں عریانی کی
نعمان شوق