EN हिंदी
جانے کس امید پہ چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ | شیح شیری
jaane kis ummid pe chhoD aae the ghar-bar log

غزل

جانے کس امید پہ چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ

نعمان شوق

;

جانے کس امید پہ چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ
نفرتوں کی شام یاد آئے پرانے یار لوگ

وہ تو کہئے آپ کی خوشبو نے پہچانا مجھے
عطر کہہ کر جانے کیا کیا بیچتے عطار لوگ

پہلے مانگیں سربلندی کی دعائیں عشق میں
پھر ہوس کی چاکری کرنے لگے بیمار لوگ

آپ کی سادہ دلی سے تنگ آ جاتا ہوں میں
میرے دل میں رہ چکے ہیں اس قدر ہشیار لوگ

اس جواں مردی کے صدقہ جائیے ہر بات پر
سر کٹانے کے لیے رہتے ہیں اب تیار لوگ

پھیلتا ہی جا رہا ہے دن بہ دن صحرائے عشق
خاک اڑاتے پھر رہے ہیں سب کے سب بے کار لوگ

بادشاہت ہو نہ ہو لیکن بھرم قائم رہے
ہر گھڑی گھیرے ہوئے بیٹھے رہیں دو چار لوگ