انسانیت کے زعم نے برباد کر دیا
پنجرے میں آ کے شیر کو آزاد کر دیا
اپنے ہی سونے پن کا مداوا نہ کر سکے
کہنے کو ہم نے شہر کو آباد کر دیا
جی بھر کے قتل عام کیا پہلے ہر طرف
پھر اس نے مملکت کو خدا داد کر دیا
دل سے کوئی علاقہ نہ تھا دور دور تک
تیشہ تھما کے ہاتھ میں فرہاد کر دیا
ہر متقی کو اس سے سبق لینا چاہیئے
جنت کی چاہ نے جسے شداد کر دیا
ہاتھوں میں اس کا ہاتھ لیے سوچتے رہے
تھا کون جس نے عشق میں برباد کر دیا
غزل
انسانیت کے زعم نے برباد کر دیا
نعمان شوق