آغوش تصور میں جب میں نے اسے مسکا
لب ہائے مبارک سے اک شور تھا ''بس بس'' کا
سو بار حریر اس کا مسکا نگہ گل سے
شبنم سے کب اے بلبل پیراہن گل مسکا
اس تن کو نہیں طاقت شبنم کے تلبس سے
اے دست ہوس اس پر تو قصد نہ کر مس کا
ملتی ہے پری آنکھیں اور حور جبیں سا ہے
ہے نقش جہاں یارو اس پائے مقدس کا
تر رکھیو سدا یارب تو اس مژۂ تر کو
ہم عطر لگاتے ہیں گرمی میں اسی خس کا
اس گریۂ خونیں کی دولت سے نظیرؔ اپنے
اب کلبۂ احزاں میں کل فرش ہے اطلس کا
غزل
آغوش تصور میں جب میں نے اسے مسکا
نظیر اکبرآبادی