EN हिंदी
آغوش تصور میں جب میں نے اسے مسکا | شیح شیری
aaghosh-e-tasawwur mein jab maine use maska

غزل

آغوش تصور میں جب میں نے اسے مسکا

نظیر اکبرآبادی

;

آغوش تصور میں جب میں نے اسے مسکا
لب ہائے مبارک سے اک شور تھا ''بس بس'' کا

سو بار حریر اس کا مسکا نگہ گل سے
شبنم سے کب اے بلبل پیراہن گل مسکا

اس تن کو نہیں طاقت شبنم کے تلبس سے
اے دست ہوس اس پر تو قصد نہ کر مس کا

ملتی ہے پری آنکھیں اور حور جبیں سا ہے
ہے نقش جہاں یارو اس پائے مقدس کا

تر رکھیو سدا یارب تو اس مژۂ تر کو
ہم عطر لگاتے ہیں گرمی میں اسی خس کا

اس گریۂ خونیں کی دولت سے نظیرؔ اپنے
اب کلبۂ احزاں میں کل فرش ہے اطلس کا