یہ حسب عقل تو کوئی نہیں سامان ملنے کا
مگر دنیا سے لے جاویں گے ہم ارمان ملنے کا
عجب مشکل ہے کیا کہئے بغیر از جان دینے کے
کوئی نقشہ نظر آتا نہیں آسان ملنے کا
ہمیں تو خاک میں جا کر بھی کیا کیا بے کلی ہوگی
جب آ جاوے گا اس غنچہ دہن سے دھیان ملنے کا
کسی سے ملنے آئے تھے سو یاں بھی ہو چلے اک دم
کہے دیتا ہوں یہ مجھ پر نہیں احسان ملنے کا
نظیرؔ اک عمر ہم اس دل ربا کے وصل کی خاطر
بہت روئے بہت چیخے پہ کیا امکان ملنے کا
ہماری بے قراری اضطرابی کچھ نہ کام آئی
وہ خود ہی آ ملا جب وقت آیا آن ملنے کا
غزل
یہ حسب عقل تو کوئی نہیں سامان ملنے کا
نظیر اکبرآبادی