EN हिंदी
یہ حسب عقل تو کوئی نہیں سامان ملنے کا | شیح شیری
ye hasb-e-aql to koi nahin saman milne ka

غزل

یہ حسب عقل تو کوئی نہیں سامان ملنے کا

نظیر اکبرآبادی

;

یہ حسب عقل تو کوئی نہیں سامان ملنے کا
مگر دنیا سے لے جاویں گے ہم ارمان ملنے کا

عجب مشکل ہے کیا کہئے بغیر از جان دینے کے
کوئی نقشہ نظر آتا نہیں آسان ملنے کا

ہمیں تو خاک میں جا کر بھی کیا کیا بے کلی ہوگی
جب آ جاوے گا اس غنچہ دہن سے دھیان ملنے کا

کسی سے ملنے آئے تھے سو یاں بھی ہو چلے اک دم
کہے دیتا ہوں یہ مجھ پر نہیں احسان ملنے کا

نظیرؔ اک عمر ہم اس دل ربا کے وصل کی خاطر
بہت روئے بہت چیخے پہ کیا امکان ملنے کا

ہماری بے قراری اضطرابی کچھ نہ کام آئی
وہ خود ہی آ ملا جب وقت آیا آن ملنے کا