گل زار ہے داغوں سے یہاں تن بدن اپنا
کچھ خوف خزاں کا نہیں رکھتا چمن اپنا
اشکوں کے تسلسل نے چھپایا تن عریاں
یہ آب رواں کا ہے نیا پیرہن اپنا
کس طرح بنے ایسے سے انصاف تو ہے شرط
یہ وضع مری دیکھو وہ دیکھو چلن اپنا
انکار نہیں آپ کے گھر چلنے سے مجھ کو
میں چلنے کو موجود جو چھوڑو چلن اپنا
مسکن کا پتہ خانہ بدوشوں سے نہ پوچھو
جس جا پہ کہ بس گر رہے وہ ہے وطن اپنا
غزل
گل زار ہے داغوں سے یہاں تن بدن اپنا
نظیر اکبرآبادی