جھمک دکھاتے ہی اس دل ربا نے لوٹ لیا
ہمیں تو پہلے ہی اس کی ادا نے لوٹ لیا
نگہ کے ٹھگ کی لگاوٹ نے فن سے کر غافل
ہنسی نے ڈال دی پھانسی دعا نے لوٹ لیا
وفا جفا نے یہ کی جنگ زر گری ہم سے
وفا نے باتوں لگایا جفا نے لوٹ لیا
لٹے ہم اس کی گلی میں تو یوں پکارے لوگ
کہ اک فقیر کو اک بادشا نے لوٹ لیا
ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک آشنا نے لوٹ لیا
ہزاروں قافلے جس شوخ نے کیے غارت
نظیرؔ کو بھی اسی بے وفا نے لوٹ لیا
غزل
جھمک دکھاتے ہی اس دل ربا نے لوٹ لیا
نظیر اکبرآبادی