جو کچھ ہے حسن میں ہر مہ لقا کو عیش و طرب
وہی ہے عشق میں ہر مبتلا کو عیش و طرب
اگرچہ اہل نوا خوش ہیں ہر طرح لیکن
زیادہ ان سے ہے ہر بے نوا کو عیش و طرب
وہ میکدے میں حلاوت ہے رند میکش کو
جو خانقاہ میں ہے پارسا کو عیش و طرب
رکھے ہے ہر تن عریاں برہنہ پائی وہی
جو کچھ ہے صاحب اسپ و قبا کو عیش و طرب
کمال قدرت حق ہے نظیرؔ کیا کہئے
جو شاہ کو ہے وہی ہے گدا کو عیش و طرب
غزل
جو کچھ ہے حسن میں ہر مہ لقا کو عیش و طرب
نظیر اکبرآبادی