جو آوے منہ پہ ترے ماہتاب ہے کیا چیز
غرض یہ ماہ تو کیا آفتاب ہے کیا چیز
یہ پیرہن میں ہے اس گورے گورے تن کی جھلک
کہ جس کے سامنے موتی کی آب ہے کیا چیز
بھلا دیں ہم نے کتابیں کہ اس پری رو کے
کتابی چہرے کے آگے کتاب ہے کیا چیز
تمہارے ہجر میں آنکھیں ہماری مدت سے
نہیں یہ جانتیں دنیا میں خواب ہے کیا چیز
نظیرؔ حضرت دل کا نہ کچھ کھلا احوال
میں کس سے پوچھوں یہ ندرت مآب ہے کیا چیز
جو سخت ہووے تو ایسا کہ کوہ آہن کا
جو نرم ہووے تو برگ گلاب ہے کیا چیز
گھڑی میں سنگ گھڑی موم اور گھڑی فولاد
خدا ہی جانے یہ عالی جناب ہے کیا چیز
غزل
جو آوے منہ پہ ترے ماہتاب ہے کیا چیز
نظیر اکبرآبادی