کیا نام خدا اپنی بھی رسوائی ہے کمبخت
رسوائی مجنوں بھی تماشائی ہے کمبخت
لڑنے کو لڑے اس سے پر اب کرتے ہیں افسوس
افسوس عجب اپنی بھی دانائی ہے کمبخت
اک بات بھی مل کر نہ کریں اس سے ہم اے چرخ
کیا تجھ کو یہی بات پسند آئی ہے کمبخت
ہمدم تو یہی کہتے ہیں چل بزم میں اس کی
کیا کہئے اسے اپنی جو خود رائی ہے کمبخت
وہ تو نہیں واقف پہ ہمیں دل میں خجل ہیں
کس منہ سے کہیں ہم نے قسم کھائی ہے کمبخت
یارو ہمیں تکلیف نہ دو سیر چمن کی
آنے دو بلا سے جو بہار آئی ہے کمبخت
رہنے دو ہمیں کنج قفس میں کہ ہمارے
قسمت میں یہی گوشۂ تنہائی ہے کمبخت
اس جام نگوں سے مئے راحت نہ طلب کر
یاں بادہ نہیں بادیہ پیمائی ہے کمبخت
توڑے ہیں بہت شیشۂ دل جس نے نظیرؔ آہ
پھر چرخ وہی گنبد بینائی ہے کمبخت
غزل
کیا نام خدا اپنی بھی رسوائی ہے کمبخت
نظیر اکبرآبادی