ہمارے عیب میں جس سے مدد ملے ہم کو
ہمیں ہے آج کل ایسے کسی ہنر کی تلاش
ناطق گلاوٹھی
ہمیں جو یاد ہے ہم تو اسی سے کام لیتے ہیں
کسی کا نام لینا ہو اسی کا نام لیتے ہیں
ناطق گلاوٹھی
ہمیں کم بخت احساس خودی اس در پہ لے بیٹھا
ہم اٹھ جاتے تو وہ پردہ بھی اٹھ جاتا جو حائل تھا
ناطق گلاوٹھی
ہچکیوں پر ہو رہا ہے زندگی کا راگ ختم
جھٹکے دے کر تار توڑے جا رہے ہیں ساز کے
ناطق گلاوٹھی
ہو گئی آوارہ گردی بے گھری کی پردہ دار
کام جتنا ہم کو آتا تھا وہ کام آ ہی گیا
ناطق گلاوٹھی
اک حرف شکایت پر کیوں روٹھ کے جاتے ہو
جانے دو گئے شکوے آ جاؤ میں باز آیا
ناطق گلاوٹھی
انتظام روز عشرت اور کر اے نامراد
عید آتی ہی رہی ماہ صیام آ ہی گیا
ناطق گلاوٹھی
اس خاکدان دہر میں گھٹتا اگر ہے دم
مقدور ہو تو آگ لگا دے ہوا نہ مانگ
ناطق گلاوٹھی
جی چرانے کی نہیں شرط دل زار یہاں
رنج اٹھانے ہی کی ٹھہری ہے تو پھر دل سے اٹھا
ناطق گلاوٹھی