EN हिंदी
ناطق گلاوٹھی شیاری | شیح شیری

ناطق گلاوٹھی شیر

109 شیر

ہمارے عیب میں جس سے مدد ملے ہم کو
ہمیں ہے آج کل ایسے کسی ہنر کی تلاش

ناطق گلاوٹھی




ہمیں جو یاد ہے ہم تو اسی سے کام لیتے ہیں
کسی کا نام لینا ہو اسی کا نام لیتے ہیں

ناطق گلاوٹھی




ہمیں کم بخت احساس خودی اس در پہ لے بیٹھا
ہم اٹھ جاتے تو وہ پردہ بھی اٹھ جاتا جو حائل تھا

ناطق گلاوٹھی




ہچکیوں پر ہو رہا ہے زندگی کا راگ ختم
جھٹکے دے کر تار توڑے جا رہے ہیں ساز کے

ناطق گلاوٹھی




ہو گئی آوارہ گردی بے گھری کی پردہ دار
کام جتنا ہم کو آتا تھا وہ کام آ ہی گیا

ناطق گلاوٹھی




اک حرف شکایت پر کیوں روٹھ کے جاتے ہو
جانے دو گئے شکوے آ جاؤ میں باز آیا

ناطق گلاوٹھی




انتظام روز عشرت اور کر اے نامراد
عید آتی ہی رہی ماہ صیام آ ہی گیا

ناطق گلاوٹھی




اس خاکدان دہر میں گھٹتا اگر ہے دم
مقدور ہو تو آگ لگا دے ہوا نہ مانگ

ناطق گلاوٹھی




جی چرانے کی نہیں شرط دل زار یہاں
رنج اٹھانے ہی کی ٹھہری ہے تو پھر دل سے اٹھا

ناطق گلاوٹھی