رسم طلب میں کیا ہے سمجھ کر اٹھا قدم
آ تجھ کو ہم بتائیں کہ کیا مانگ کیا نہ مانگ
ناطق گلاوٹھی
ریا کاری کے سجدے شیخ لے بیٹھیں گے مسجد کو
کسی دن دیکھنا ہو کر رہے گی سرنگوں وہ بھی
ناطق گلاوٹھی
سب کو یہ شکایت ہے کہ ہنستا نہیں ناطقؔ
ہم کو یہ تعجب کہ وہ گریاں نہیں ہوتا
ناطق گلاوٹھی
سب کچھ مجھے مشکل ہے نہ پوچھو مری مشکل
آسان بھی ہو کام تو آساں نہیں ہوتا
ناطق گلاوٹھی
سر سے دیار غم کے سنیچر اتار دے
منگل ہے جس میں جا کے وہ جنگل اٹھا تو لا
ناطق گلاوٹھی
شیخ جزائے کار خیر جو بتا رہا ہے آج
بات تو خوب ہے مگر آدمی معتبر نہیں
ناطق گلاوٹھی
صبح پیری میں پھرا شام جوانی کا گیا
دل ہے وہ صبح کا بھٹکا جو سر شام ملا
ناطق گلاوٹھی
طریق دلبری کافی نہیں ہر دل عزیزی کو
سلیقہ بندہ پرور چاہئے بندہ نوازی کا
ناطق گلاوٹھی
تو ہمیں کہتا ہے دیوانہ کو دیوانے سہی
پند گو آخر تجھے اب کیا کہیں دیوانہ ہم
ناطق گلاوٹھی