کر مرتب کچھ نئے انداز سے اپنا بیاں
مرنے والے زندگی چاہے تو افسانے میں آ
ناطق گلاوٹھی
کشتی ہے گھاٹ پر تو چلے کیوں نہ دور آج
کل بس چلے چلے نہ چلے چل اٹھا تو لا
ناطق گلاوٹھی
کون اس رنگ سے جامہ سے ہوا تھا باہر
کس سے سیکھا تری تلوار نے عریاں ہونا
ناطق گلاوٹھی
کھو دیا شہرت نے اپنی شعر خوانی کا مزا
داد مل جاتی ہے ناطقؔ ہر رطب یابس کے بعد
ناطق گلاوٹھی
کچھ نہیں اچھا تو دنیا میں برا بھی کچھ نہیں
کیجیے سب کچھ مگر اپنی ضرورت دیکھ کر
ناطق گلاوٹھی
کس کو مہرباں کہئے کون مہرباں اپنا
وقت کی یہ باتیں ہیں وقت اب کہاں اپنا
ناطق گلاوٹھی
کیجیے کار خیر میں حاجت استخارہ کیا
کیجیے شغل مے کشی اس میں کسی کی رائے کیوں
ناطق گلاوٹھی
پہلی باتیں ہیں نہ پہلے کی ملاقاتیں ہیں
اب دنوں میں وہ رہا لطف نہ راتوں میں رہا
ناطق گلاوٹھی
ختم کرنا چاہتا ہوں پیچ و تاب زندگی
یاد گیسو زور بازو بن مرے شانے میں آ
ناطق گلاوٹھی