جو بلا آتی ہے آتی ہے بلا کی ناطقؔ
میری مشکل کا طریقہ نہیں آساں ہونا
ناطق گلاوٹھی
جرأت افزائے سوال اے زہے انداز جواب
آتی جاتی ہے اب اس بت کی نہیں ہاں کے قریب
ناطق گلاوٹھی
کہنے والے وہ سننے والا میں
ایک بھی آج دوسرا نہ ہوا
ناطق گلاوٹھی
کیفیت تضاد اگر ہو نہ بیان شعر میں
ناطقؔ اسی پہ روئے کیوں چنگ نواز گائے کیوں
ناطق گلاوٹھی
کر مرتب کچھ نئے انداز سے اپنا بیاں
مرنے والے زندگی چاہے تو افسانے میں آ
ناطق گلاوٹھی
کشتی ہے گھاٹ پر تو چلے کیوں نہ دور آج
کل بس چلے چلے نہ چلے چل اٹھا تو لا
ناطق گلاوٹھی
کون اس رنگ سے جامہ سے ہوا تھا باہر
کس سے سیکھا تری تلوار نے عریاں ہونا
ناطق گلاوٹھی
کھا گئی اہل ہوس کی وضع اہل عشق کو
بات کس کی رہ گئی کوئی عدو سچا نہ ہم
ناطق گلاوٹھی
کھائیے یہ زہر کب تک کھائے جاتی ہے یہ زیست
اے اجل کب تک رہیں گے رہن آب و دانہ ہم
ناطق گلاوٹھی