پابند دیر ہو کے بھی بھولے نہیں ہیں گھر
مسجد میں جا نکلتے ہیں چوری چھپی سے ہم
ناطق گلاوٹھی
پہلی باتیں ہیں نہ پہلے کی ملاقاتیں ہیں
اب دنوں میں وہ رہا لطف نہ راتوں میں رہا
ناطق گلاوٹھی
پہنچائے گا نہیں تو ٹھکانے لگائے گا
اب اس گلی میں غیر کو رہبر بنائیں گے
ناطق گلاوٹھی
پھر چاک دامنی کی ہمیں قدر کیوں نہ ہو
جب اور دوسرا نہیں کوئی لباس پاس
ناطق گلاوٹھی
رہ کے اچھا بھی کچھ بھلا نہ ہوا
میں برا ہو گیا برا نہ ہوا
ناطق گلاوٹھی
رہ نوردان وفا منزل پہ پہنچے اس طرح
راہ میں ہر نقش پا میرا بناتا تھا چراغ
ناطق گلاوٹھی
رہتی ہے شمس و قمر کو ترے سائے کی تلاش
روشنی ڈھونڈھتی پھرتی ہے اندھیرا تیرا
ناطق گلاوٹھی
رکھتا ہے تلخ کام غم لذت جہاں
کیا کیجیے کہ لطف نہیں کچھ گناہ کا
ناطق گلاوٹھی
رکھی ہوئی ہے ساری خدائی ترے لئے
حق دار بن کے سامنے آ مانگ یا نہ مانگ
ناطق گلاوٹھی