EN हिंदी
ناطق گلاوٹھی شیاری | شیح شیری

ناطق گلاوٹھی شیر

109 شیر

مجنوں سے جو نفرت ہے دیوانی ہے تو لیلیٰ
وہ خاک اڑاتا ہے لیکن نہیں دل میلا

ناطق گلاوٹھی




میرے سینہ میں نہیں ہے تو یہ سمجھو کہ نہ تھا
پوچھتے کیا ہو جو ہوتا تو یہیں دل ہوتا

ناطق گلاوٹھی




مل گئے تم ہاتھ اٹھا کر مجھ کو سب کچھ مل گیا
آج تو گھر لوٹ لائی ہے دعا تاثیر کی

ناطق گلاوٹھی




ملے مراد ہماری مگر ملے بھی کہیں
خدا کرے مگر ایسا خدا نہیں کرتا

ناطق گلاوٹھی




مجھ کو معلوم ہوا اب کہ زمانہ تم ہو
مل گئی راہ سکوں گردش دوراں کے قریب

ناطق گلاوٹھی




مجھ سے ناراض ہیں جو لوگ وہ خوش ہیں ان سے
میں جدا چیز ہوں ناطقؔ مرے اشعار جدا

ناطق گلاوٹھی




نہ مے کشی نہ عبادت ہماری عادت ہے
کہ سامنے کوئی کام آ گیا تو کر لینا

ناطق گلاوٹھی




ناز ادھر دل کو اڑا لینے کی گھاتوں میں رہا
میں ادھر چشم سخن گو تری باتوں میں رہا

ناطق گلاوٹھی




نظر آتا نہیں اب گھر میں وہ بھی اف رے تنہائی
اک آئینہ میں پہلے آدمی تھا میری صورت کا

ناطق گلاوٹھی