تم اگر جاؤ تو وحشت مری کھا جائے مجھے
گھر جدا کھانے کو آئے در و دیوار جدا
ناطق گلاوٹھی
تم ایسے اچھے کہ اچھے نہیں کسی کے ساتھ
میں وہ برا کہ کسی کا برا نہیں کرتا
ناطق گلاوٹھی
تمہاری بات کا اتنا ہے اعتبار ہمیں
کہ ایک بات نہیں اعتبار کے قابل
ناطق گلاوٹھی
عمر بھر کا ساتھ مٹی میں ملا
ہم چلے اے جسم بے جاں الودع
ناطق گلاوٹھی
اسے پا بہ گل نہ رکھتا جو خیال تیرہ بختی
جسے ذرہ کہہ رہے ہو یہی اک شرار ہوتا
ناطق گلاوٹھی
وفا پر ناز ہم کو ان کو اپنی بے وفائی پر
کوئی منہ آئنہ میں دیکھتا ہے کوئی پانی میں
ناطق گلاوٹھی
وہاں سے لے گئی ناکام بدبختوں کو خودکامی
جہاں چشم کرم سے خودبخود کچھ کام ہونا تھا
ناطق گلاوٹھی
یہ خدا کی شان تو دیکھیے کہ خدا کا نام ہی رہ گیا
مجھے تازہ یاد بتاں ہوئی جو حرم سے شور اذاں اٹھا
ناطق گلاوٹھی
ظاہر نہ تھا نہیں سہی لیکن ظہور تھا
کچھ کیوں نہ تھا جہان میں کچھ تو ضرور تھا
ناطق گلاوٹھی