پابند دیر ہو کے بھی بھولے نہیں ہیں گھر
مسجد میں جا نکلتے ہیں چوری چھپی سے ہم
ناطق گلاوٹھی
عمر بھر کا ساتھ مٹی میں ملا
ہم چلے اے جسم بے جاں الودع
ناطق گلاوٹھی
صبح پیری میں پھرا شام جوانی کا گیا
دل ہے وہ صبح کا بھٹکا جو سر شام ملا
ناطق گلاوٹھی
طریق دلبری کافی نہیں ہر دل عزیزی کو
سلیقہ بندہ پرور چاہئے بندہ نوازی کا
ناطق گلاوٹھی
تو ہمیں کہتا ہے دیوانہ کو دیوانے سہی
پند گو آخر تجھے اب کیا کہیں دیوانہ ہم
ناطق گلاوٹھی
تم اگر جاؤ تو وحشت مری کھا جائے مجھے
گھر جدا کھانے کو آئے در و دیوار جدا
ناطق گلاوٹھی
تم ایسے اچھے کہ اچھے نہیں کسی کے ساتھ
میں وہ برا کہ کسی کا برا نہیں کرتا
ناطق گلاوٹھی
تمہاری بات کا اتنا ہے اعتبار ہمیں
کہ ایک بات نہیں اعتبار کے قابل
ناطق گلاوٹھی
ظاہر نہ تھا نہیں سہی لیکن ظہور تھا
کچھ کیوں نہ تھا جہان میں کچھ تو ضرور تھا
ناطق گلاوٹھی