EN हिंदी
جو نگاہ ناز کا بسمل نہیں | شیح شیری
jo nigah-e-naz ka bismil nahin

غزل

جو نگاہ ناز کا بسمل نہیں

مبارک عظیم آبادی

;

جو نگاہ ناز کا بسمل نہیں
دل نہیں وہ دل نہیں وہ دل نہیں

بوتلیں خالی گئیں زیر عبا
آج مے خانے میں مے فاضل نہیں

میری دشواری ہے دشواری مری
میری مشکل آپ کی مشکل نہیں

کہہ رہی ہے ہر ادا قاتل تمہیں
تم کہے جاؤ کہ ہم قاتل نہیں

بہکی بہکی ہے مبارکؔ بات بات
خیر تو ہے کیوں ٹھکانے دل نہیں