اپنے اوپر تو رحم کر ظالم
دیکھ مت بار بار آئینہ
میر محمدی بیدار
عیاں ہے شکل تری یوں ہمارے سینہ سے
کہ جوں شراب نمایاں ہو آبگینہ سے
میر محمدی بیدار
باپ کا ہے فخر وہ بیٹا کہ رکھتا ہو کمال
دیکھ آئینے کو فرزند رشید سنگ ہے
میر محمدی بیدار
بیدارؔ راہ عشق کسی سے نہ طے ہوئی
صحرا میں قیس کوہ میں فرہاد رہ گیا
میر محمدی بیدار
دیکھ تو فال میں کہ وہ مجھ سے
نہ ملے گا ملے گا کیا ہوگا
میر محمدی بیدار
گر کسی غیر کو فرماؤ گے تب جانو گے
وے ہمیں ہیں کہ بجا لاویں جو ارشاد کرو
میر محمدی بیدار
آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا
میر محمدی بیدار
ہے خیال اس کا مانع گفتار
ورنہ سو قوت بیاں ہے مجھے
میر محمدی بیدار
ہیں تصور میں اس کے آنکھیں بند
لوگ جانیں ہیں خواب کرتا ہوں
میر محمدی بیدار