آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا
میر محمدی بیدار
آپ کو آپ میں نہیں پاتا
جی میں یاں تک مرے سمائے ہو
میر محمدی بیدار
عبث مل مل کے دھوتا ہے تو اپنے دست نازک کو
نہیں جانے کی سرخی ہاتھ سے خون شہیداں کی
میر محمدی بیدار
اگر چلی ہے تو چل یوں کہ پات بھی نہ ہلے
خلل نہ لائے صبا تو فراغ میں گل کے
میر محمدی بیدار
عجب کی ساحری اس من ہرن کی چشم فتاں نے
دیا کاجل سیاہی لے کے آنکھوں سے غزالاں کی
میر محمدی بیدار
اپنے اوپر تو رحم کر ظالم
دیکھ مت بار بار آئینہ
میر محمدی بیدار
عیاں ہے شکل تری یوں ہمارے سینہ سے
کہ جوں شراب نمایاں ہو آبگینہ سے
میر محمدی بیدار
باپ کا ہے فخر وہ بیٹا کہ رکھتا ہو کمال
دیکھ آئینے کو فرزند رشید سنگ ہے
میر محمدی بیدار
بیدارؔ راہ عشق کسی سے نہ طے ہوئی
صحرا میں قیس کوہ میں فرہاد رہ گیا
میر محمدی بیدار