EN हिंदी
میر محمدی بیدار شیاری | شیح شیری

میر محمدی بیدار شیر

43 شیر

ہم پہ سو ظلم و ستم کیجئے گا
ایک ملنے کو نہ کم کیجئے گا

میر محمدی بیدار




حواس و ہوش کو چھوڑ آپ دل گیا اس پاس
جب اہل فوج ہی مل جائیں کیا سپاہ کرے

میر محمدی بیدار




ہو گئے دور میں اس چشم کے مے خانے خراب
نہ کہیں شیشہ رہا اور نہ کہیں جام رہا

میر محمدی بیدار




ہوں میں وہ دیوانۂ نازک مزاج گل رخاں
کیجئے زنجیر جس کو سایۂ زنجیر سے

میر محمدی بیدار




اس کھیل سے کہہ اپنی مژہ سے کہ باز آئے
عالم کو نیزہ بازی سے زیر و زبر کیا

میر محمدی بیدار




جاتا ہے چلا قافلۂ اشک شب و روز
معلوم نہیں اس کا ارادہ ہے کہاں کا

میر محمدی بیدار




جاتے ہو سیر باغ کو اغیار ساتھ ہو
جو حکم ہو تو یہ بھی گنہ گار ساتھ ہو

میر محمدی بیدار