جو کچھ کہ تھا وظائف و اوراد رہ گیا
تیرا ہی ایک نام فقط یاد رہ گیا
ظالم تری نگہ نے کئے گھر کے گھر خراب
ہوگا کوئی مکاں کہ وہ آباد رہ گیا
جاتے ہیں ہم صفیر چمن کو پر ایک میں
یاں کشتۂ تغافل صیاد رہ گیا
جوں ہی دو چار آ کے ہوا وہ نظر فریب
لے کر قلم کو ہاتھ میں بہزاد رہ گیا
اس سرو گل عذار کی طرز خرام دیکھ
خجلت سے گڑ زمین میں شمشاد رہ گیا
کس کس کا دل نہ شاد کیا تو نے اے فلک
اک میں ہی غمزدہ ہوں کہ ناشاد رہ گیا
بیدارؔ راہ عشق کسی سے نہ طے ہوئی
صحرا میں قیس کوہ میں فرہاد رہ گیا
غزل
جو کچھ کہ تھا وظائف و اوراد رہ گیا
میر محمدی بیدار