کون یاں بازار خوبی میں ترا ہم سنگ ہے
حسن کے میزاں میں تیرے مہر و مہ پاسنگ ہے
میں وہ ہوں دیوانۂ سرخیل ارباب جنوں
ہاتھ میں پتھر لیے ہر طفل میرے سنگ ہے
جائے تکیہ عاشق بے خانماں کو وقت خواب
زیر سر کوچہ میں تیرے خشت ہے پاسنگ ہے
اس جواہر پوش کے دیکھے ہیں وہ یاقوت لب
جس کی رنگینی کے آگے لعل بھی اک سنگ ہے
سرمئی آنکھوں کا تیرے جو کوئی بیمار ہو
ایک میل اس کے تئیں رکھنا قدم فرسنگ ہے
جل گیا تنہا نہ کوہ طور ہی پروانہ وار
آگ تیرے عشق کی شمع دل ہر سنگ ہے
سخت جانی میری اور ظالم ترے سنگیں دلی
آہ مثل آسیا یہ سنگ اوپر سنگ ہے
باپ کا ہے فخر وہ بیٹا کہ رکھتا ہو کمال
دیکھ آئینے کو فرزند رشید سنگ ہے
سر مرا تیرے قدم کے ساتھ یوں ہے پیش رو
ٹھوکروں میں جس طرح سے رہگزر کا سنگ ہے
اعتقاد مومن و کافر ہے رہبر ورنہ پھر
کچھ نہیں دیر و حرم میں خاک ہے پاسنگ ہے
یہ صدا گھر گھر کرے ہے آسیا پھر پھر مدام
مشت گندم کے لیے چھانی کے اوپر سنگ ہے
شیخ کی مسجد سے اے بیدارؔ کیا ہے تجھ کو کام
سجدہ گہ اپنا صنم کے آستاں کا سنگ ہے
غزل
کون یاں بازار خوبی میں ترا ہم سنگ ہے
میر محمدی بیدار