EN हिंदी
دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے | شیح شیری
daman ko uske khinchen aghyar sab taraf se

غزل

دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے

میر حسن

;

دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے
اور آہ ہم یہ کھینچیں آزار سب طرف سے

جب کام دل نہ ہرگز حاصل ہوا کہیں سے
دل کو اٹھا کے بیٹھے ناچار سب طرف سے

جی چاہتا ہے اس کے کوچہ میں بیٹھ رہیے
کر ترک آشنائی یکبار سب طرف سے

تجھ پاس بھی نہ آویں ہم اب تو جائیں کیدھر
تو نے تو ہم کو کھویا اے یار سب طرف سے

مژگاں سے اس کے کیوں کر دل چھٹ سکے ہمارا
گھیرے ہوئے ہیں اس کو وے خار سب طرف سے

پردے ہزار ہوویں حائل پہ حسن اس کا
دیتا ہے طالبوں کو دیدار سب طرف سے

کونا بھی ایک دل کا ثابت نہیں یہ کس نے
اس گھر کو کر دیا ہے مسمار سب طرف سے

نالہ ضعیف اپنا پہنچے گا کیونکہ واں تک
کی ہے بلند اس نے دیوار سب طرف سے

اک بار تو عزیزاں تم مل کے حال میرا
کر بیٹھو اس کے آگے اظہار سب طرف سے

دیوانہ ہو کے چھوٹا دنیا سے ورنہ یاراں
ہوتے گلے کے میرے تم ہار سب طرف سے

وے دن بھی آہ کوئی کیا تھے کہ جن دنوں میں
دل کو خوشی تھی اپنے دل دار سب طرف سے

بس تیرے غم میں آ کر اب خاک ہو گئے ہم
دل بجھ گیا ہمارا اک بار سب طرف سے

ذکر وفا و الفت مت چھیڑ بس حسنؔ اب
جی ہو رہا ہے اپنا بیزار سب طرف سے