قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
خواجہ میر دردؔ
قتل سے میرے وہ جو باز رہا
کسی بد خواہ نے کہا ہوگا
خواجہ میر دردؔ
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے
خواجہ میر دردؔ
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں
خواجہ میر دردؔ
نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز
گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو
خواجہ میر دردؔ
نہ رہ جاوے کہیں تو زاہدا محروم رحمت سے
گنہ گاروں میں سمجھا کریو اپنی بے گناہی کو
خواجہ میر دردؔ
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
خواجہ میر دردؔ
مت جا تر و تازگی پہ اس کی
عالم تو خیال کا چمن ہے
خواجہ میر دردؔ
میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
خواجہ میر دردؔ