باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
خواجہ میر دردؔ
بند احکام عقل میں رہنا
یہ بھی اک نوع کی حماقت ہے
خواجہ میر دردؔ
دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا
خواجہ میر دردؔ
دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
خواجہ میر دردؔ
درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے
خواجہ میر دردؔ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
خواجہ میر دردؔ
دل بھی اے دردؔ قطرۂ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا
خواجہ میر دردؔ
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے
خواجہ میر دردؔ
دشمنی نے سنا نہ ہووے گا
جو ہمیں دوستی نے دکھلایا
خواجہ میر دردؔ