آنکھیں بھی ہائے نزع میں اپنی بدل گئیں
سچ ہے کہ بے کسی میں کوئی آشنا نہیں
خواجہ میر دردؔ
آگے ہی بن کہے تو کہے ہے نہیں نہیں
تجھ سے ابھی تو ہم نے وے باتیں کہی نہیں
ahead of time, before I speak, you do seek to deny
those matters that I haven't even started to imply
خواجہ میر دردؔ
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
خواجہ میر دردؔ
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
خواجہ میر دردؔ
باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں
گر یار ہیں تو ہم ہیں اغیار ہیں تو ہم ہیں
خواجہ میر دردؔ
باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
خواجہ میر دردؔ
بند احکام عقل میں رہنا
یہ بھی اک نوع کی حماقت ہے
خواجہ میر دردؔ
دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا
خواجہ میر دردؔ
دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
خواجہ میر دردؔ