ایک ایمان ہے بساط اپنی
نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے
خواجہ میر دردؔ
غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زینہار
اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے
خواجہ میر دردؔ
آنکھیں بھی ہائے نزع میں اپنی بدل گئیں
سچ ہے کہ بے کسی میں کوئی آشنا نہیں
خواجہ میر دردؔ
حال مجھ غم زدہ کا جس جس نے
جب سنا ہوگا رو دیا ہوگا
خواجہ میر دردؔ
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
خواجہ میر دردؔ
ہم بھی جرس کی طرح تو اس قافلے کے ساتھ
نالے جو کچھ بساط میں تھے سو سنا چلے
خواجہ میر دردؔ
ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا
ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم
خواجہ میر دردؔ
ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن
اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو
خواجہ میر دردؔ
ہو گیا مہماں سرائے کثرت موہوم آہ
وہ دل خالی کہ تیرا خاص خلوت خانہ تھا
خواجہ میر دردؔ