EN हिंदी
بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا | شیح شیری
bin tere kya kahen kya rog hamein yar laga

غزل

بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا

جرأت قلندر بخش

;

بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا
ڈر لگے نام لیے جس کا وہ آزار لگا

سب یہ کہتے ہیں مجھے تجھ سے جو دل یار لگا
ہائے کیا اس کو جوانی میں یہ آزار لگا

ہم دوانوں کا یہ ہے دشت جنوں میں رتبہ
کہ قدم رکھتے ہی آ پاؤں سے ہر خار لگا

کہیے کیوں کر نہ اسے بادشہ کشور حسن
کہ جہاں جا کے وہ بیٹھا وہیں دربار لگا

قدر پھر اپنی ہو کیا اس کے خریداروں میں
روز و شب جس کی گلی میں رہے بازار لگا

کون سا دن وہ کٹا مجھ پہ کہ اے تیغ فراق
زخم اک تازہ مرے دل پہ نہ ہر بار لگا

دل میں اب اس کے جو لہر آئی ہے گھر جانے کی
تو بھی رونے کی جھڑی دیدۂ خوں بار لگا

متصل تو جو مرا خون جگر پیتا ہے
کیوں غم عشق یہ کیا تجھ کو مزے دار لگا

تیز دستیٔ جنوں آج ہے ایسی ہی کہ بس
نہ رہا اپنے گریباں میں کوئی تار لگا

اس زمیں میں غزل اک اور بھی پڑھ اے جرأتؔ
خوب انداز کے اب کہنے تو اشعار لگا