اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جرأت قلندر بخش
واں سے آیا ہے جواب خط کوئی سنیو تو ذرا
میں نہیں ہوں آپ میں مجھ سے نہ سمجھا جائے گا
جرأت قلندر بخش
واہ میں اور نہ آنے کو کہوں گا توبہ
میں تو حیراں ہوں یہ بات آپ نے فرمائی کیا
جرأت قلندر بخش
وارستہ کر دیا جسے الفت نے بس وہ شخص
کب دام کفر و رشتۂ اسلام میں پھنسا
جرأت قلندر بخش
یوں قطرے مرے خون کے اس تیغ سے گزرے
جوں فوج کا پل پر سے ہو دشوار اتارا
جرأت قلندر بخش
زاہدا زہد و ریاضت ہو مبارک تجھ کو
کیوں کہ تقویٰ سے میاں میری تو بہبود نہیں
جرأت قلندر بخش
زاہدا زہد تو پڑھا، میں عشق
ہے مری اور تری کتاب میں فرق
جرأت قلندر بخش
یوں اٹھے وہ بزم میں تعظیم کو غیروں کی ہائے
ہم نشیں تو بیٹھ یاں ہم سے نہ بیٹھا جائے گا
جرأت قلندر بخش
یہ آگ لگا دی کہ نہیں انجم و افلاک
یہ داغ پہ ہے داغ یہ چھالے پہ ہے چھالا
جرأت قلندر بخش