ترے سوا کوئی کیسے دکھائی دے مجھ کو
کہ میری آنکھوں پہ ہے دست غائبانہ ترا
عرفانؔ صدیقی
سنا تھا میں نے کہ فطرت خلا کی دشمن ہے
سو وہ بدن مری تنہائیوں کو پاٹ گیا
عرفانؔ صدیقی
شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے
عرفانؔ صدیقی
شمع خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفراں
جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی
عرفانؔ صدیقی
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
عرفانؔ صدیقی
ہم نے مدت سے الٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دست دادار ترے درہم و دینار پہ خاک
عرفانؔ صدیقی
ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آ گئے ہیں
عرفانؔ صدیقی
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
عرفانؔ صدیقی
ہم بڑے اہل خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا
عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا
عرفانؔ صدیقی