ہے بہت کچھ مری تعبیر کی دنیا تجھ میں
پھر بھی کچھ ہے کہ جو خوابوں کے جہاں سے کم ہے
عرفانؔ صدیقی
ایک میں ہوں کہ اس آشوب نوا میں چپ ہوں
ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
عرفانؔ صدیقی
ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے
ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے
عرفانؔ صدیقی
دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب
میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے
عرفانؔ صدیقی
دولت سر ہوں سو ہر جیتنے والا لشکر
طشت میں رکھتا ہے نیزے پہ سجاتا ہے مجھے
عرفانؔ صدیقی
ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں
کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
عرفانؔ صدیقی
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
عرفانؔ صدیقی
اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں
ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے
عرفانؔ صدیقی
اپنے چاروں سمت دیواریں اٹھانا رات دن
رات دن پھر ساری دیواروں میں در کرنا مجھے
عرفانؔ صدیقی