EN हिंदी
عرفانؔ صدیقی شیاری | شیح شیری

عرفانؔ صدیقی شیر

79 شیر

مرے گماں نے مرے سب یقیں جلا ڈالے
ذرا سا شعلہ بھری بستیوں کو چاٹ گیا

عرفانؔ صدیقی




میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

عرفانؔ صدیقی




مولیٰ، پھر مرے صحرا سے بن برسے بادل لوٹ گئے
خیر شکایت کوئی نہیں ہے اگلے برس برسا دینا

عرفانؔ صدیقی




میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں
مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

عرفانؔ صدیقی




میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جان مراد
خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے

عرفانؔ صدیقی




میں کہاں تک دل سادہ کو بھٹکنے سے بچاؤں
آنکھ جب اٹھے گنہ گار بنا دے مجھ کو

عرفانؔ صدیقی




میں جھپٹنے کے لیے ڈھونڈھ رہا ہوں موقع
اور وہ شوخ سمجھتا ہے کہ شرماتا ہوں

عرفانؔ صدیقی




میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں
کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

عرفانؔ صدیقی




مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی

عرفانؔ صدیقی