کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب
سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں
عرفانؔ صدیقی
کبھی جو زحمت کار رفو نہیں کرتا
ہمارے زخم اسی چارہ گر کے نام تمام
عرفانؔ صدیقی
جو تیر بوڑھوں کی فریاد تک نہیں سنتے
تو ان کے سامنے بچوں کا مسکرانا کیا
عرفانؔ صدیقی
جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں
جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا
عرفانؔ صدیقی
جسم کی رعنائیوں تک خواہشوں کی بھیڑ ہے
یہ تماشا ختم ہو جائے تو گھر جائیں گے لوگ
عرفانؔ صدیقی
جانے کیا ٹھان کے اٹھتا ہوں نکلنے کے لیے
جانے کیا سوچ کے دروازے سے لوٹ آتا ہوں
عرفانؔ صدیقی
جان ہم کار محبت کا صلہ چاہتے تھے
دل سادہ کوئی مزدور ہے اجرت کیسی
عرفانؔ صدیقی
آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے
میں تو اک عمر سے کافر ہوں صنم جانتے ہیں
عرفانؔ صدیقی
ہو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیر گراں بولتی ہے
عرفانؔ صدیقی