بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
عرفانؔ صدیقی
آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے
میں تو اک عمر سے کافر ہوں صنم جانتے ہیں
عرفانؔ صدیقی
اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں
ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے
عرفانؔ صدیقی
اپنے چاروں سمت دیواریں اٹھانا رات دن
رات دن پھر ساری دیواروں میں در کرنا مجھے
عرفانؔ صدیقی
اجنبی جان کے کیا نام و نشاں پوچھتے ہو
بھائی ہم بھی اسی بستی کے نکالے ہوئے ہیں
عرفانؔ صدیقی
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
عرفانؔ صدیقی
اے پرندو یاد کرتی ہے تمہیں پاگل ہوا
روز اک نوحہ سر شاخ شجر سنتا ہوں میں
عرفانؔ صدیقی
اے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں
اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے
عرفانؔ صدیقی
ابھی سے راستہ کیوں روکنے لگی دنیا
کھڑے ہوئے ہیں ابھی اپنے روبرو ہم لوگ
عرفانؔ صدیقی