خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے ترے باد صبا لے گئی ہم کو
پتھر تھے کہ گوہر تھے اب اس بات کا کیا ذکر
اک موج بہرحال بہا لے گئی ہم کو
پھر چھوڑ دیا ریگ سر راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
تم کیسے گرے آندھی میں چھتنار درختو
ہم لوگ تو پتے تھے اڑا لے گئی ہم کو
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
اس شہر میں غارت گر ایماں تو بہت تھے
کچھ گھر کی شرافت ہی بچا لے گئی ہم کو
غزل
خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
عرفانؔ صدیقی