جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک
تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک
ہم نے مدت سے الٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دست دادار ترے درہم و دینار پہ خاک
پتلیاں گرمیٔ نظارہ سے جل جاتی ہیں
آنکھ کی خیر میاں رونق بازار پہ خاک
جو کسی اور نے لکھا ہے اسے کیا معلوم
لوح تقدیر بجا چہرۂ اخبار پہ خاک
چار دیوار عناصر کی حقیقت کتنی
یہ بھی گھر ڈوب گیا دیدۂ خوں بار پہ خاک
پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
اے ہوائے سر صحرا تری رفتار پہ خاک
یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اڑا دی میں نے
جم رہی تھی مرے آئینہ اشعار پہ خاک
یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمہیں
محضر شوق پڑھو محضر سرکار پہ خاک
آپ کیا نقد دو عالم سے خریدیں گے اسے
یہ تو دیوانے کا سر ہے سر پندار پہ خاک
غزل
جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک
عرفانؔ صدیقی