دل نے امداد کبھی حسب ضرورت نہیں دی
دشت میں عقل نہ دی شہر میں وحشت نہیں دی
عشق تو آج بھی ہے کس کے لہو سے سرسبز
کس مہم کے لیے ہم نے تجھے اجرت نہیں دی
دھوپ بولی کہ میں آبائی وطن ہوں تیرا
میں نے پھر سایۂ دیوار کو زحمت نہیں دی
عشق میں ایک بڑا ظلم ہے ثابت قدمی
وقت نے بھی ہمیں اس باب میں قدرت نہیں دی
سر سلامت لیے لوٹ آئے گلی سے اس کی
یار نے ہم کو کوئی ڈھنگ کی خدمت نہیں دی
کون سی ایسی خوشی ہے جو ملی ہو اک بار
اور تا عمر ہمیں جس نے اذیت نہیں دی
اہل دل نے کبھی مخلوط حکومت نہ بنائی
عقل والوں نے بھی بے شرط حمایت نہیں دی
فرحتؔ احساس تو ہم خود ہی بنے ہیں ورنہ
فرحت اللہ نے کبھی اس کی اجازت نہیں دی
غزل
دل نے امداد کبھی حسب ضرورت نہیں دی
فرحت احساس