ستم ایجاد رہوگے ستم ایجاد رہے
اس میں اب شاد رہے یا کوئی ناشاد رہے
آپ نے عہد کیا ہے مری غم خواری کا
اب اجازت ہو تو یہ عہد مجھے یاد رہے
گر مری توبہ کو مقبول شکست توبہ
میری تدبیر میں تقدیر کی افتاد رہے
قید ہستی سے بہت تم نے کیے ہیں آزاد
کوئی اس قید محبت کی بھی میعاد رہے
وہ خدائی ہو تو ہو شان تجلی تو نہیں
جس تجلی میں نگاہوں کو خدا یاد رہے
ظلم ہے تجھ سے بہ تقریب تکلف منسوب
ورنہ تقدیر وفا یہ ہے کہ برباد رہے
دل آباد کا فانیؔ کوئی مفہوم نہیں
ہاں مگر جس میں کوئی حسرت برباد رہے
غزل
ستم ایجاد رہوگے ستم ایجاد رہے
فانی بدایونی