EN हिंदी
جستجوئے نشاط مبہم کیا | شیح شیری
justuju-e-nashat-e-mubham kya

غزل

جستجوئے نشاط مبہم کیا

فانی بدایونی

;

جستجوئے نشاط مبہم کیا
دل میسر ہے لذت غم کیا

مستئ ہوش کے فسانے ہیں
جشن پرویز و عشرت جم کیا

ایک عالم کو دیکھتا ہوں میں
یہ ترا دھیان ہے مجسم کیا

اذن ہنگامۂ نگاہ نہ دے
کیا ہماری بساط اور ہم کیا

ننگ رحمت ہے احتیاج دعا
انتظار گدائے مبرم کیا

میری فطرت ہے گوش بر آواز
سن رہا ہوں نوائے محرم کیا

مٹ گیا نام عاشقی اب اور
چاہتا ہے وہ حسن برہم کیا

کاش پوچھو تو کچھ بتائیں ہم
حاصل شکوہ ہائے باہم کیا

دل کمال حیات ہے فانیؔ
دل کے مارے ہوؤں کا ماتم کیا