نہ دیکھے ہوں گے رند لاابالی تم نے بیخودؔ سے
کہ ایسے لوگ اب آنکھوں سے اوجھل ہوتے جاتے ہیں
بیخود دہلوی
مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند
بیخود دہلوی
منہ پھیر کر وہ کہتے ہیں بس مان جائیے
اس شرم اس لحاظ کے قربان جائیے
بیخود دہلوی
منہ میں واعظ کے بھی بھر آتا ہے پانی اکثر
جب کبھی تذکرۂ جام شراب آتا ہے
بیخود دہلوی
محبت اور مجنوں ہم تو سودا اس کو کہتے ہیں
فدا لیلیٰ پہ تھا آنکھوں کا اندھا اس کو کہتے ہیں
بیخود دہلوی
ملا کے خاک میں سرمایۂ دل بیخودؔ
وہ پوچھتے ہیں بتاؤ یہ مال کس کا تھا
بیخود دہلوی
میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا
بیخود دہلوی
موت آ رہی ہے وعدے پہ یا آ رہے ہو تم
کم ہو رہا ہے درد دل بے قرار کا
بیخود دہلوی
محفل وہی مکان وہی آدمی وہی
یا ہم نئے ہیں یا تری عادت بدل گئی
بیخود دہلوی