EN हिंदी
بیخود دہلوی شیاری | شیح شیری

بیخود دہلوی شیر

71 شیر

کیا کہہ دیا یہ آپ نے چپکے سے کان میں
دل کا سنبھالنا مجھے دشوار ہو گیا

بیخود دہلوی




تری تیغ کا لال کر دوں گا منہ
جو یہ کھیلنے مجھ سے آئے گی رنگ

بیخود دہلوی




تیر قاتل کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
ہم تو دشمن کو بھی آرام دیے جاتے ہیں

بیخود دہلوی




تکیہ ہٹتا نہیں پہلو سے یہ کیا ہے بیخودؔ
کوئی بوتل تو نہیں تم نے چھپا رکھی ہے

بیخود دہلوی




سن کے ساری داستان رنج و غم
کہہ دیا اس نے کہ پھر ہم کیا کریں

بیخود دہلوی




سوال وصل پر کچھ سوچ کر اس نے کہا مجھ سے
ابھی وعدہ تو کر سکتے نہیں ہیں ہم مگر دیکھو

بیخود دہلوی




سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا

بیخود دہلوی




سخت جاں ہوں مجھے اک وار سے کیا ہوتا ہے
ایسی چوٹیں کوئی دو چار تو آنے دیجے

بیخود دہلوی




رند مشرب کوئی بیخودؔ سا نہ ہوگا واللہ
پی کے مسجد ہی میں یہ خانہ خراب آتا ہے

بیخود دہلوی