ہو لیے جس کے ہو لیے بیخودؔ
یار اپنا تو یہ حساب رہا
بیخود دہلوی
کچھ طرح رندوں نے دی کچھ محتسب بھی دب گیا
چھیڑ آپس میں سر بازار ہو کر رہ گئی
بیخود دہلوی
کوئی اس طرح سے ملنے کا مزا ملتا ہے
اوپری دل سے وہ ملتا ہے تو کیا ملتا ہے
بیخود دہلوی
جھوٹا جو کہا میں نے تو شرما کے وہ بولے
اللہ بگاڑے نہ بنی بات کسی کی
بیخود دہلوی
جواب سوچ کے وہ دل میں مسکراتے ہیں
ابھی زبان پہ میری سوال بھی تو نہ تھا
بیخود دہلوی
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا
بیخود دہلوی
اس جبین عرق افشاں پہ نہ چنئے افشاں
یہ ستارے کہیں مل جائیں نہ سیاروں میں
بیخود دہلوی
اجازت مانگتی ہے دخت رز محفل میں آنے کی
مزا ہو شیخ صاحب کہہ اٹھیں بے اختیار آئے
بیخود دہلوی
حوروں سے نہ ہوگی یہ مدارات کسی کی
یاد آئے گی جنت میں ملاقات کسی کی
بیخود دہلوی