منہ پھیر کر وہ کہتے ہیں بس مان جائیے
اس شرم اس لحاظ کے قربان جائیے
بھولے نہیں ہیں ہم وہ مدارات رات کی
جی چاہتا ہے پھر کہیں مہمان جائیے
بولے وہ مسکرا کے بہت التجا کے بعد
جی تو یہ چاہتا ہے تری مان جائیے
آگے ہے گھر رقیب کا بس ساتھ ہو چکا
اب آپ کا خدا ہے نگہبان جائیے
الفت جتا کے دوست کو دشمن بنا لیا
بیخودؔ تمہاری عقل کے قربان جائیے
غزل
منہ پھیر کر وہ کہتے ہیں بس مان جائیے
بیخود دہلوی