جو تماشا نظر آیا اسے دیکھا سمجھا
جب سمجھ آ گئی دنیا کو تماشا سمجھا
اس کی اعجاز نمائی کا تماشائی ہوں
کہیں جگنو بھی جو چمکا ید بیضا سمجھا
میں یہ سمجھا ہوں کہ سمجھے نہ مری بات کو آپ
سر ہلا کر جو کہا آپ نے اچھا سمجھا
اثر حسن کہوں یا کشش عشق کہوں
میں تماشائی تھا وہ مجھ کو تماشا سمجھا
کیا کہوں میرے سمانے کو سمجھ ہے درکار
خاک سمجھا جو مجھے خاک کا پتلا سمجھا
ایک وہ ہیں جنہیں دنیا کی بہاریں ہیں نصیب
ایک میں ہوں قفس تنگ کو دنیا سمجھا
میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا
غزل
جو تماشا نظر آیا اسے دیکھا سمجھا
بیخود دہلوی