بات کرنے کی شب وصل اجازت دے دو
مجھ کو دم بھر کے لئے غیر کی قسمت دے دو
بیخود دہلوی
دی قسم وصل میں اس بت کو خدا کی تو کہا
تجھ کو آتا ہے خدا یاد ہمارے ہوتے
بیخود دہلوی
چشم بد دور وہ بھولے بھی ہیں ناداں بھی ہیں
ظلم بھی مجھ پہ کبھی سوچ سمجھ کر نہ ہوا
بیخود دہلوی
چلنے کی نہیں آج کوئی گھات کسی کی
سننے کے نہیں وصل میں ہم بات کسی کی
بیخود دہلوی
بولے وہ مسکرا کے بہت التجا کے بعد
جی تو یہ چاہتا ہے تری مان جائیے
بیخود دہلوی
بھولے سے کہا مان بھی لیتے ہیں کسی کا
ہر بات میں تکرار کی عادت نہیں اچھی
بیخود دہلوی
بیخودؔ ضرور رات کو سوئے ہو پی کے تم
یہ تو کہو نماز پڑھی یا قضا ہوئی
بیخود دہلوی
بیخودؔ تو مر مٹے جو کہا اس نے ناز سے
اک شعر آ گیا ہے ہمیں آپ کا پسند
بیخود دہلوی
بات وہ کہئے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں
کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لیے
بیخود دہلوی